سزائے موت سے بچ جانے والے ساتھیوں کو ہدایت : بھگت سنگھ

باتو کشور دت کے نام

سزائے موت سے بچ جانے والے ساتھیوں کو ہدایت

یہ موت کی سزا سے بچ رہنے والے ساتھیوں کے لیے ہدایت نامہ تھا ۔ اس میں بھگت سنگھ نے ہندوستان میں انقلاب برپا کرنے کے ادھورے کام کا ذکر کرتے ہوئے ان ساتھیوں پر زور دیا ہے کہ انقلاب کو مکمل کرنے کی ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے ۔






سنٹرل جیل لاہور - نومبر ،1930ء

پیارے بھائی !


فیصلہ سنایا جا چکا ہے ۔مجھے موت کی سزا دی جانا ہے ۔ان کوٹھڑیوں میں میرے علاوہ متعدد دوسرے قیدی بھی پھانسی کے منتظر ہیں ۔ان لوگوں کی ایک ہی دعا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ پھندے سے بچ جائیں ۔ شاید میں ان میں واحد شخص ہوں جسے اس دن کا شدت سے انتظار ہے جب وہ اپنے نصب العین کے لیے ٹکٹکی کو گلے لگائے گا ۔
میں پھانسی کے تختے پر خوشی سے جاؤں گا اور دنیا کو دکھاؤں گا کہ انقلابی اپنے نصب العین کے لیے کس بہادری سے جان قربان کرتے ہیں ۔
مجھے موت کی سزا سنائی گئی ہے تاہم تمہیں عمر قید بھگتنا ہو گی ۔ تم زندہ رہو گے اور اس طرح دنیا کو دکھاؤ گے کہ انقلابی اپنے مقصد کے لیے جان ہی نہیں دیتے بلکہ ہر مصیبت کا سامنا بھی کر سکتے ہیں ۔
موت کو دنیاوی مشکلات سے فرار کا ذریعہ نہ سمجھا جائے ۔ جن انقلابیوں کو پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا موقع ملا ہے ، انھیں زندہ رہناچاہیے اور دنیا کو دکھانا چاہیے کہ وہ اپنے نصب العین کے لیے نہ صرف پھندے کو چوم سکتے ہیں بلکہ نیم تاریک قید خانوں میں بد ترین تشدد بھی برداشت کر سکتے ہیں ۔

تمہارا
بھگت سنگھ



عمران خان کا خطاب : عوام مجھ پر اعتماد کریں ۔


عمران خان سے 22 مارچ کو تقریر کرتے ہوئے  مکمل لاک ڈاؤں کی مخالفت کر دی ۔ اُنھوں نے کہا کہ ہماری 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ اُن کی اکثریت دیہاڑی لگا کر بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔ اگر مکمل لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے تو یہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے ۔                                
ہم لوگوں کو گھروں میں کھانا نہیں پہنچا سکتے ۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود گھروں میں بند رہیں ۔ گھروں سے باہر نہ نکلیں اور خود کو قرنطینہ میں رکھیں ۔ احتیاط کریں اسی صورت وہ اس وبا سے بچ سکتے ہیں ۔
اُنھوں نے کہا کہ ہمیں کرونا سے زیادہ افراتفری سے خطرہ ہے ۔ ہمارے پاس اناج وافر مقدار میں موجود ہے ۔ کسی کو ذخیرہ اندوزی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ 
 انھوں نے کہا ہے کہ عوام اُن پر اعتماد کرے ۔ 



اُن کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا میں اُن کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اںھوں نے عوام کے لیے کسی ٹھوس ریلیف کی بات نہیں کی ۔ بلکہ عوام کو خود گھروں میں محدود رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔

لوگ سوال پوچھ رہے ہیں اگر وہ خود کو گھروں تک محدود کر لیں گے تو اُن کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا ۔
لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ کرنے کے بعد لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا مشورہ کیسے دیا جا سکتا ۔ 


اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ پیسے والے لوگ گھروں میں بند رہیں ۔ اور صرف دیہاڑی دار لوگ باہر نکلیں تو اُن کا کام کیسے چلے گا ۔ کیونکہ مزدور تو چوک میں بیٹھ بیٹھ کر چلے جائیں گے کام کروانے والے باہر ہی نکلیں گے ۔

اسی طرح رکشہ ڈرائیور اور ٹیکسی ڈرائیور کا کام تو اسی وقت چلے گا جب لوگ بازاروں میں موجود ہوں گے ۔ اگر لوگ خود کو گھروں تک محدود کر لیں گے تو یہ بھی ایک لاک ڈاؤن کی صورت ہی ہو گی ۔ 

عمران خان کا قوم سے خطاب : کرونا وائرس سے نہ گھبرانے کی تلقین

لوگ عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں انھوں نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ کہ لوگ خود احتیاط کریں اور بچ سکتے ہیں تو بچیں ورنہ مر جائیں ۔ حکومت آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہے ۔

لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ماضی میں اپنی کہی ہوئی ہر بات سے یو ٹرن لیتے رہے ہیں ۔ اور اس بار تو انھوں نے عوام کو ریلیف دینے کا کوئی وعدہ اور دعویٰ بھی کیا ۔ ایسے میں اُن پر کیا اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔

عمران خان نے تقریر کے  آخر میں کہا کہ وہ پرسوں صنعت اور تجارت کے حوالے سے اہم اعلانات کریں گے ۔ 

                                

بُنمبل : شکور احسن کا نیا پوٹھوہاری شعری مجموعہ

شکور احسن کا نیا  پوٹھوہاری شعری مجموعہ "بُنمبل " کے نام سے چھپ کر منظرِ عام پر آ چکا ہے ۔ 


شکور احسن اردو اور پوٹھوہاری میں شعر کہتے ہیں ۔ افسانے اور مضامین بھی لکھتے ہیں ۔

لیکن شاعری اور خصوصی طور پر پوٹھوہاری شاعری میں اُن کے جوہر نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں ۔ 

پوٹھوہاری زبان و ادب سے لگاؤ کے باعث وہ شعر کہنے کے علاوہ زبان و ادب کی اشاعت و  ترویج کے لیے بھی ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں ۔ 

ایک اچھے منتظم کی حیثیت سے مختلف ادبی تنظیموں کا حصّہ ہیں اور ادبی سرگرمیوں کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ۔
اُن کے تازہ شعری مجموعے نے بھی پوٹھوہاری شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کیا ۔ اور اس شعری مجموعے نے اُنھیں پوٹھوہاری کے صفِ اوّل کے شعرا میں لا کھڑا کیا ہے ۔ 



اُن کی شاعری جہاں تہذیب و ثقافت سے جڑی ہوئی ہے وہیں اس میں جدت کا رنگ بھی نمایاں ہے ۔

قارئین کتاب کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل فون نمبر اور پتے پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔

پتہ  : گاؤں پنڈوڑہ ڈاکخانہ بھائی خان یونین کونسل جنڈ مہلو
        تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی 

فون : 03015230171



کرونا وائرس : پاکستان متاثر ہونے والے بڑے تیس ممالک میں شامل

پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ متاثرہ افراد کی تعداد 500 سے زائد ہو گئی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی پاکستان متاثر ہونے والے تیس بڑے ممالک کی فہرست میں آ گیا ہے ۔ 
افسوسناک بات یہ ہے کہ  حکومتی اور عوامی سطح پر اس تشویش ناک صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ۔ شادی بیاہ کی تقریبات ، ادبی اور سماجی اکٹھ ،نماز اور جمعہ کے اجتماعات ختم نہیں کیے جا رہے ۔ بلکہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے قران خوانی اور دیگر مذہبی اجتماعات ہو رہے ہیں . پارٹیاں ہو رہی ہیں پکنک منائی جارہی ہے ۔ سیر و تفریح کے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں ۔  جو اس کو روکنے بجائے اس میں شدید اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔ 



سنجیدہ حلقے پہلے ہی اس جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ اگر یہ صورتحال گمبھیر ہوئی تو پاکستان میں اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ جہاں ڈاکٹر ماسک اور دیگر طبی آلات کے نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں وہاں مریضوں کا کیا حال ہو گا یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔


کرونا وائرس پاکستان میں صورتحال بے قابو ہونے کا خطرہ

ضرورت اس امر کی ہے لوگ خود احتیاطی تدابیر اختیار کریں ۔عوامی  اجتماعات میں جانے سے گریز کریں ۔ جہاں تک ممکن ہو ہوٹلنگ نہ کریں ۔ زیادہ وقت گھر میں گزاریں ۔ وقفے وقفے سے ہاتھ دھوتے رہیں ۔ ماسک استعمال کریں ۔ اور ممکن ہو تو گھر کا سودا سلف ایک ہی بار میں خرید کر رکھ لیں تاکہ بار بار بازار کا چکر نہ لگانا پڑے ۔

حکومتی سطح پر انفراسٹرکچر کا یہ حال ہے کہ پورے ملک میں صرف 2500 وینٹی لیٹر دستیاب ہیں ۔ جو اس وبا میں بچاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔
مریضوں کی تعداد بڑھنے پر یہ وینٹی لیٹر امرا اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے لیے بھی ناکافی ہوں گے ایسی صورت میں عوام صرف حالات کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔ 


ضروری ہے کہ اس کے متعلق آگاہی کو پھیلایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی جائے ۔

بصورتِ دیگر یہ پاکستان میں ایک بھیانک دور کا آغاز ہو گا ۔ اور اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں گے یہ تصور کرنا ہی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا دیتا ہے ۔ 



بابا بُلّھے شاہ : گور پیا کوئی ہور


پنجابی زبان کے مشہور عوامی شاعر بابا بُلھے شاہ کی پیدائش 1680ء میں ریاست بہاولپور (پاکستان) کے ایک گاؤں " اُچ گیلانیاں " میں ہوئی ۔۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کا خاندان قصور منتقل ہو گیا ۔۔ آپ کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا ۔۔ وہ مسجد کی امامت کرتے تھے اور بچوں کو تعلیم دیتے تھے ۔۔ انھیں عربی ، فارسی اور مذہبی علوم پر دسترس حاصل تھی ۔



بابا بُلّھے شاہ کا اصل نام عبداللہ شاہ تھا ۔۔ جو بگڑ کر بُلھا شاہ اور بُلّھے شاہ ہو گیا ۔۔ اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے ۔۔ اور یہی نام خاص و عام کی زبان پر گونجنے لگا ۔۔۔ بُلّھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔۔ چند دوسرے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کے بعد علم و عرفان کی جستجو اور تڑپ آپ کو حضرت شاہ عنایت قادری کے دروازے پر لے آئی ۔۔

شاہ عنایت تصوف کے قادری سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔۔ ذات کے لحاظ سے آرائیں تھے ۔۔ اور بہت سی فارسی کتابوں کے مصنف تھے ۔۔۔ وہ دوسرے صوفیاء کی طرح تارک الدُنیا نہیں تھے ۔۔ بلکہ کھیتی باڑی اور باغبانی کرتے تھے ۔۔۔ قصور میں مقیم تھے لیکن حاکم سے مخالفت کی وجہ سے لاہور منتقل ہونا پڑا اور پھر لاہور کے ہی ہو کر رہ گئے ۔۔

بُلّھے شاہ کا بچپن گاؤں میں مویشی چراتے گذرا ۔۔ والد امام مسجد تھے اور امام مسجد کی حیثیت اُس عہد میں گاؤں کے دوسرے ہنرمندوں موچی ، نائی اور جولاہوں کے برابر ہی تھی ۔۔ یہی وجہ ہے بُلّھے شاہ کامعاشرے کے پِسے ہوئے طبقات کے حوالے سے نہ صرف گہرا مشاہدہ تھا ۔۔ بلکہ آپ خود ان حالات سے گزرے تھے ۔۔ اسی مشاہدے اور تجربے نے آگے چل کر بے باک شاعرانہ اسلوب کی بنیاد رکھی ۔۔

اگر اُس عہد کا جائزہ لیا جائے تو سترہویں اور اٹھارویں صدی برصغیر کا پرآشوب عہد تھا ۔۔ اس عہد نے نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی تباہ کاریاں دیکھیں ۔۔۔ دلّی کو اجڑتے ہوئے دیکھا ۔۔ لاکھوں انسان اس قتل و غارت کی بھینٹ چڑھ گئے ۔۔۔ دوسری جانب یہ اورنگ زیب عالمگیر کی " مذہبی جنونیت " کا عہد تھا ۔۔ جس میں بادشاہت کے جبر کو ملائیت میں ڈبو کر لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔۔۔ عالمگیر کے بارے میں ابنِ انشاء کا مشہور جملہ ہے کہ " دین و دنیا دونوں پر نظر رکھتا تھا نہ اس نے کوئی نماز چھوڑی اور نہ کسی بھائی کو چھوڑا " ۔۔۔

عوام کے ساتھ سلوک میں مذہب کو اہمیت دی جانے لگی ۔۔ اور مذہبی تعصبات کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔ جبر و استبداد اور ظلم و ناانصافی کو نماز روزے اور ٹوپیاں سینے جیسے علامتی کاموں میں لپیٹ پر روا رکھا جانے لگا ۔۔ جس پر اُسے اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ کہا جانے لگا ۔ جس میں مذہبی پیشواؤں کو بھی جبر کا موقع میسر آیا ۔۔

دوسری طرف اس انتشار اور مذہبی جنونیت کے خلاف ہمیں ادبی اور فکری سطح پر ایک بے مثال ردِ عمل بھی ملتا ہے ۔۔ اسی عہد میں پنجاب نے بُلّھے شاہ (1757-1680) اور وارث شاہ (1798-1722) کو جنم دیا ۔۔۔ سندھ کی دھرتی پر شاہ لطیف بھٹائی (1752-1689) اور سچل سرمست (1826-1739) نے انمٹ نقوش چھوڑے ۔۔۔ پشتو زبان میں رحمان بابا (1711-1653) عوام کی آواز بن کر اُبھرے اردو میں خواجہ میر درد (1785-1721) اور میر تقی میر (1810-1723) نے عظیم شعری روایت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں ۔۔۔

لیکن اس عہد کے بے مثال شعراء میں یہ اعزاز صرف بُلّھے شاہ کے حصے میں آیا کہ ان کے اشعار ، کافیاں اور دوہڑے صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ سندھ ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں لوگوں کے دل کی آواز بن گئے ۔۔۔ اور اس عظیم شاعر کی آواز ہندوستان کے ہر کونے اور ہر لہجے میں گونجی ۔۔۔

بُلّھے شاہ کی شاعری اور زندگی مذہبی ملاؤں اور پنڈتوں سے نبرد آزما رہی ۔۔ فرسودہ ذات پات کا نظام اور طبقاتی تفریق کو آپ نے خاص طور پر ہدفِ تنقید بنیایا ۔۔ گھسے پٹے کتابی علم سے نکل کر سماج کی زندہ حقیقتوں کو موضوع بحث بنایا ۔۔۔ مذہبی بنیادوں پر نفرت اور جھگڑے پیدا کرنے والے متعصب اور جنونی مذہبیوں کے خلاف آواز بلند کی ۔۔ اور تمام انسانوں کو ایک انسانی برادری قرار دیا ۔۔۔

آپ جب شاہ عنایت کے مرید ہوئے تو اس پر بھی اُن کی برادری اور ملّاؤں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔۔ کیونکہ آپ سیّد تھے آلِ نبی اولادِ علی سے تعلق رکھتے تھے ۔۔ لیکن شاہ عنایت ذات کے آرائیں تھے جو کمتر اور گھٹیا سمجھی جاتی تھی ۔۔۔ یہ بات اُن کی برادری اور مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی کہ ایک اعلٰی خاندان اور قابلِ فخر نسبت کا حامل شخص نچلی ذات کے کسی فرد کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرے ۔۔

لیکن آپ نے اپنے سیّد ہونے کو ٹھکرا دیا ۔۔ اور سب کی مخالفت مول لے کر شاہ عنایت کو مرشد مان لیا ۔ اور اُس نسلی تفاخر سے نکل کر اپنی تشکیلِ نو کی اور ایک نئے انسان کے روپ میں سامنے آئے جو ماضی کے تمام تعصبات سے پاک ہو چکا تھا ۔۔ اس حوالے سے اُن کے اشعار دیکھیے :

بُلھے نوں سمجھاؤن آیاں بہناں تے بھرجائیاں
آلِ نبی اولاد علی دی توں کیوں لیکاں لائیاں
من لے بُلھیا ساڈا کہنا ، چھڈ دے پلّہ رائیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیہڑا سانوں سیّد آکھے ، دوزخ ملن سزائیاں
جہیڑا سانوں رائیں آکھے ، بہشتیں پینگاں پائیاں
جے توں لوڑیں باغ بہاراں ، طالب ہو جا رائیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بغاوت پر آپ کو خاندان ، ذات اور اپنے ہم مذہبوں کی شدید مخالفت مول لینا پڑی ۔۔ لیکن آپ ڈٹے رہے ۔۔ نہ صرف یہ کہ ہر قسم کا لعن طعن برداشت کیا بلکہ اپنی شاعری اور عمل سے اُس کا جواب بھی دیا ۔

اسی دور میں جب آپ نسلی تفاخر کو خاک میں ملانے کی پاداش میں زیر عتاب تھے ۔۔ آپ نے گدھے پال لیے جو اُس عہد میں سب سے نچلے طبقے کا کام تھا ۔۔ اور کوئی باعزت شخص یہ کام نہیں کر سکتا تھا ۔۔ لیکن بُلھے شاہ اپنے آپ کو اُس سماج کے نچلے ترین طبقے میں لے آئے اور اُس کا عملی حصّہ بن گئے ۔۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کو "کھوتیاں والا" کہہ کر پکارنے لگے ۔۔۔

دقیانوسی رسوم و رواج اور روایتی بندھن آپ کو کبھی بھی پسند نہ تھے ۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر اُن کو توڑ کر آپ کو خوشی ملتی تھی ۔۔ مذہب ، رنگ ، نسل اور جنس کی تفریق آپ کے نزدیک ایک بے معنی چیز تھی ۔۔۔ اور انسانی وحدت اور انسانی برادری کی ہم آہنگی کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی تھی ۔۔۔

آپ کے حوالے سے مشہور ہے کہ ہیجڑوں کے ساتھ گھل مل جاتے ۔۔ اُن کے ساتھ ناچنا شروع کر دیتے ۔۔ یہاں تک کہ چوکوں اور چوراہوں میں مجمع کے سامنے بھی ہیجڑوں کے ساتھ ناچتے ۔۔۔
اُن کا خاندان اور برادری اس بات سے نالاں رہتے کہ بُلھا ہر قدم پر اُن کی بے عزتی کا باعث بن رہا ہے ۔۔ شاہ عنایت کا مرید ہونے کے بعد ، گدھے پالنا اور اب ہیجڑوں کے ساتھ ناچ گانا ۔۔ لیکن آپ اپنی سرمستی اور دھن میں چلتے چلے جا رہے تھے ۔۔

بُلھے شاہ سے قبل بھی شعرا نے مذہبی پیشواؤں کی چیرہ دستیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔۔ لیکن جس بہادری ، جرات اور دلیری سے بُلھے شاہ نے ان مذہبی ٹھیکیداروں کو رد کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔۔ کہتے ہیں :

ملّا تے مشالچی دوہاں اکو چت
لوکاں کردے چاننا تے آپ ہنیرے وچ

اسی طرح اُن مُلّاؤں کی عالمانہ اصطلاحات اور فرسودہ کتابوں کی بے معنی تکرار سے تنگ آ کر یوں اُن کا پردہ فاش کرتے ہیں :

عِلموں پئے قضیے ہور
اکھیں والے انھی کور
پھڑ لئے ساہ تے چھڈے چور
دوہیں جہانیں ہویا خوار

عِلموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ مسئلے روز سناویں
کھانا شک شبہے دا کھاویں
دسّیں ہور تے ہور کماویں
اندر کھوٹ باہر سچیار

علموں بس کریں او یار

پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اُچیاں بانگاں چانگھاں ماریں
منبر چڑھ کے واعظ پکاریں
تینوں کیتا حرص خوار

علموں بس کریں او یار

یہ بُلھے شاہ ہی تھا جس نے رام رحیم کے قدیمی جھگڑے کو رد کر کے اصل مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی اور اس نتازعے کو بے معنی قرار دیا ۔۔ جو ملّاؤں کا گھڑا ہوا ہے ۔۔۔ اور جس کا جدید عہد کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔

کتے رام داس کتے فتح محمد ایہو قدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا ، نکل پیا کوئی ہور

اپنے عہد کی افراتفری ، سماجی گراوٹ اور لوٹ مار کو بُلھے شاہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔۔

الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے
آپنیاں وچ اُلفت ناہیں ، کیا چاچے کیا تائے
سچیاں نوں پئے ملدے دھکّے ، جھوٹے کول بہائے

کہتے ہیں ایک مرتبہ آپ حجرے میں بیٹھے تھے ۔۔ رمضان کا مہینہ تھا ۔۔۔ آپ کے کچھ مرید حجرے کے باہر بیٹھے گاجریں کھا رہے تھے ۔۔ قریب سے چند روزہ دار مسلمان گذرے تو اُنھیں رمضان میں اس طرح روزہ خوری پر شدید غصّہ آیا ۔۔۔بولے " شرم نہیں آتی رمضان کے مہینے میں چر رہے ہو " ؟ مریدوں نے کہا " جاؤ بھائی مومنو! بھوک لگی ہے اسی لیے کھا رہے ہیں ۔۔۔"
مومنوں کو شک ہوا کہ شاید یہ مسلمان نہیں ہیں ۔۔ اُنھوں نے پوچھا کہ تم ہو کون ؟ مُریدین بولے مسلمان ہیں کیوں مسلمانوں کو بھوک نہیں لگتی ؟؟

یہ سننا تھا کہ مومنین جو گھوڑوں پر سوار تھے نیچے اُتر آئے اور مریدوں کی خوب پٹائی کی ۔۔ اور حجرے میں جا کر آپ سے پوچھا " ارے تو کون ہے " ؟؟ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں جانے کا کہا ۔۔ انھوں نے دوبارہ پوچھا " تو کون ہے بولتا کیوں نہیں" ؟؟ آپ نے پھر جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔ وہ آپ کو دیوانہ سمجھ کر چلے گئے ۔۔

تھوڑی دیر کے بعد مرید حجرے میں داخل ہوئے اور شکایت کی کہ اُنھوں نے ہمیں مارا ہے ۔۔ آپ نے کہا " تم لوگوں نے ضرور کوئی قصور کیا ہو گا ۔۔۔ "
مرید بولے نہیں حضور ہم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔
انھوں نے تم سے کیا پوچھا تھا ؟
مریدین نے بتایا کہ اُنھوں نے پوچھا تھا کہ تم کون ہو تو ہم نے کہا مسلمان ہیں ۔۔۔
بُلھے شاہ نے کہا کچھ بنے ہو تو مار کھائی ہے ناں ہم کچھ نہیں بنے ہمیں کسی نے کچھ نہیں کہا ۔۔"
بُلّھے شاہ کون ہے ؟ اس بارے میں آپ نے خود شعری پیرائے میں یوں اظہارِخیال کیا ہے ۔۔

بلھیا کی جاناں میں کون ؟

نہ میں مومن وچ مسیتاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں
نہ میں موسی نہ فرعون

بلھیا کی جاناں میں کون ؟

نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں وچ شادی غمناکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون

بلھیا کی جاناں میں کون ؟

نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم ہوا جایا
نہ کجھ اپنا نام دھرایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون

بلھیا کی جاناں میں کون ؟

اوّل آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھانا
میتھوں ودھ نہ کوئی سیانا
بلھیا او کھڑا ہے کون

بلھیا کی جاناں میں کون ؟

بُلھے شاہ نے شاعری کے ضمن میں ایک ضخیم ورثہ چھوڑا ہے ۔۔ پنجابی کی تمام اہم اصناف کافی ِ سی حرفی ، گنڈھاں ، اٹھوارے ، دوہڑے اور بارہ ماہے اُن کے کلام میں شامل ہیں ۔۔۔

ایک مختصر پوسٹ میں اُن کے کلام ، فکر، زندگی اور اُس عہد کے حالات کی جانب محض اشارہ کرنا ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔۔ اور اس میں بہت سے پہلوؤں کا رہ جانا بھی یقینی ہے ۔۔۔

بُلھے شاہ اپنے عہد کے سماجی اور مذہبی جبر کے خلاف ایک انتہائی توانا آواز تھے جو اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر جدوجہد کرتے رہے ۔۔۔ آپ کی اعلی انسانی اقدار اور فکر و عمل کے باعث ہندو ، مسلمان ، سکھ اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھتے والے لوگ اُن سے یکساں محبت رکھتے ہیں ۔

بُلّھے شاہ کی موت کے وقت (1757) اُن کے انقلابی فکروعمل کے باعث ملّاؤں نے انھیں برادری کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی ۔۔ اُن پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُن کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ویسے بھی بُلھے شاہ کو اس کی ضرورت  نہیں تھی ۔ وہ تو آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔ وہ تو خود کہتے ہیں ۔ 



" بّلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کرونا وائرس : توہمات ، جعلی ٹوٹکے اور خرافات

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جعلی ٹوٹکوں ، توہمات اور علاج کے عجیب و غریب طریقوں  میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ 

خصوصی طور پر بر صغیر میں جہاں سائنسی طرزِ فکر پر توہمات حاوی رہتےہیں ۔ وہاں اس طرح کی کسی آفت ، مصیبت یا وبا کی صورت میں مختلف مولوی ، پنڈت اور یوگی نمودار ہو جاتے ہیں ۔ اور لوگوں کو اس سے بچنے کے عجیب و غریب طریقے بتانا شروع کر دیتے ہیں جسے ایک سائنس کا ادنیٰ طالب علم بھی قبول نہیں کر سکتا ۔ 


مگر لوگوں کی اکثریت جو نہ صرف سائنسی علم سے بہرہ ور نہیں ہے بلکہ جدید سائنسی علاج کروانے کی استطاعت سے بھی محروم ہے ۔ انھیں ڈبہ پیروں اور جوگیوں کی بے سر و پا باتوں کو سننے پر مجبور ہے ۔

کرونا وائرس کی وبا  نے بھی اس طرح کے پیروں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنے اپنے عقیدوں کی دھن پر راگ گا سکیں ۔ 

کیونکہ اب تک سائنسی اعتبار سے اس کی ویکسین دریافت نہیں ہو سکی ۔ 

ہمارا حکمران  طبقہ بھی  اس سلسلے میں ان عاملوں اور مولویوں کا ہمنوا ہے ۔ کیونکہ وہ لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولتیں دینے میں ناکام ہے ۔ اور اس وائرس سے بچاؤ کے لیے بنیادی آلات فراہم کر سکتا ہے نہ ہی انفراسٹکچر بنا سکتا ہے ۔  اس لیے وہ بھی لوگوں کو دعاؤں کے آسرے پر زندہ رکھے ہوئے ہے ۔
انڈیا میں گاؤ موتر اور گاؤ گوبر کو کرونا کا علاج قرار دیا جا رہا ہے ۔
اور ایک ہندو قوم پرست جماعت نے تو گاؤ موتر پینے کی ایک اجتماعی تقریب بھی منعقد کی ہے ۔ گاؤ موتر پینے کی اس پارٹی میں لوگ گھنٹوں برتن اُٹھائے  لائن میں لگے رہے ۔

پاکستان میں حجامہ سینٹر اس کا علاج کرنے میں سرگرم ہو گئے ہیں ۔

ایک مولوی صاحب نے قرآن سے بال تلاش کر کے اسے پانی میں ڈبو کر پینے کو اس کا علاج بتایا ہے ۔


پیاز ، پودینہ ، گڑ اور کلونجی بھی تجویز کیے جا رہے ہیں ۔

ایک پیر صاحب پھونکوں سے اس علاج کر رہے ہیں ۔

کچھ لوگوں کو خواب میں اشارے ملے ہیں کہ ان دعاؤں کو پڑھنے سے اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے ۔ 

ایک مولوی صاحب کی مذہبی تحقیق سے یہ بات آشکار ہوئی ہے کہ  کبوتر کے گوشت میں کرونا وائرس کا علاج ہے ۔

غرض کہ  عجیب غریب طریقوں ، دعاؤں اور دواؤں کی بھرمار ہے ۔ 

اگر کمی ہےتو صرف سائنسی طریقہ علاج کی اور جدید انفراسٹرکچر کی ۔
 کرونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا رہے اور  ڈاکٹروں تک کو ماسک اور حفاظتی آلات  فراہم نہیں کیے جا رہے ۔

عوام کو چاہیے کہ اس توہم پرستی سے نکلتے ہوئے ان پیروں ، حکیموں اور پنڈتوں کے ہاتھوں یرغمال نہ ہوں ۔ اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ علاج کے لیے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں ۔ 


علامہ ناصر مدنی پر حملے کا ڈراپ سین

علامہ ناصر مدنی پر حملے کا معمہ حل ہو گیا ۔ اُن پرتشدد کرنے والے ملزمان گرفتار کر لیے گئے ۔
واضح رہے کہ چند دن قبل علامہ ناصر مدنی کو اغوا کر لیا گیا اور اُن پر شدید تشدد کرتے ہوئے اُنھیں برہنہ کر کے اُن کی ویڈیو بنائی گئی تھی ۔
اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں ۔


علامہ ناصر مدنی پر اغوا کے بعد بہیمانہ تشدد : برہنہ ویڈیو بھی بنائی گئی

اُس وقت علامہ ناصر مدنی نے خود پر تشدد کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے جعلی پیر جو شُف شُف کر کے کرونا کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتا ہے کے متعلق ایک ویڈیو بنائی تھی ممکن ہے کہ اسی وجہ سے اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو ۔ 

اُن کی یہ بات درست نکلی ۔ اُن پر  تشدد کرنیوالے غلام ربانی، علی عباس اور محمد الیاس ہیں جنہیں پولیس نے گرفتار کیا اور ملزمان سے دو گنز اور ایک پستول برآمد کیاہے ۔ اُن میں سے ایک ملزم غلام ربانی پیر حق خطیب سرکار کا مرید ہے ۔ اور اس کے حق خطیب سرکار سے قریبی روابط کے ثبوت بھی ملے ہیں ۔ پولیس اب تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا یہ تشدد پیرحق خطیب کی ایما پر کیا گیا ہے یا یہ مریدین کا ذاتی اور جذباتی فیصلہ تھا ۔ 


Featured Post

سزائے موت سے بچ جانے والے ساتھیوں کو ہدایت : بھگت سنگھ

باتو کشور دت کے نام سزائے موت سے بچ جانے والے ساتھیوں کو ہدایت یہ موت کی سزا سے بچ رہنے والے ساتھیوں کے لیے ہدایت نامہ تھا ۔ اس میں ب...

Popular Posts